Bus Jeeny K Layaq Na Chore Gi - Urdu Hindi Love Poetry

Bus Jeeny K Layaq Na Chore Gi

Bus Jeeny K Layaq Na Chore Gi
Aur Kya Kar Le Gi Yad Teri...?

میں لغزشوں سے اٹے راستے پہ_____چل نکلا
تجھے گنوا کے مجھے پھر کہاں سنبھلنا تھا

کیسا چپ چپ تھا مرے عزم سفر کو دیکھ کر​
ڈر گیا میں اخری بار اپنے گھر کو دیکھ کر​

میرے سر اس چار دیواری کے کتنے قرض تھے​
سر جھکا جاتا تھا ان دیوار و در کو دیکھ کر​

شہر سے رخصت کے منظر کا بھی اپنا کرب تھا​
دل لہو روتا تھا اک اک رہ گزر کو دیکھ کر​

کیا عمارت تھی کہ جس کو وقت غارت کر گیا​
انکھ بھر آئی ہے خواہش کے کھنڈر کو دیکھ کر​

جو ملا پہلے وہی بھوکی نظر میں جچ گیا​
میں نے کب چاہا تھا اس کو، شہر بھر کو دیکھ کر​

خود غرض دل کی خواہش جان لے لے گی ریاض​
خود پہ رحم آتا ہے اپنے ہمسفر کو دیکھ کر​

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا

تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا

یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا

یونہی بے وجہ ٹھٹھکنے کی ضرورت کیا تھی
دم رخصت اگر یاد نہ آیا ہوتا

تیرا غماز بنا خود تیرا اندازِ خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا

اپنے بدلے میری تصویر نظر آجاتی
تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تیری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں
ابھی تو وعدہ و پیماں اور یہ حال اپنا
وصال ہوتو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں

یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں

جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا
یہ آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں

پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں

نڈھال اہلِ طرب ہیں کہ اہلِ گلشن کے
بجھے بجھے سے یہ چہرے سنور نہ جائیں کہیں

فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے اب اہلِ نظر نہ جائیں کہیں

جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا
خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں
اِس عمر کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا

تم اصل سے بچھڑا ہوا اک خواب ہو شاید
اس خواب کو یادوں کے حوالے نہیں کرنا

اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی
پیغام پرندوں کے حوالے نہیں کرنا

دنیا بھی تو پاتال سے باہر کا سفر ہے
منزل کبھی رستوں کے حوالے نہیں کرنا

اب کے جو مسافت ہمیں درپیش ہے اس میں
کچھ بھی تو سرابوں کے حوالے نہیں کرنا

جس آگ سے روشن ہوا احساس کا آنگن
اس آگ کو اشکوں کے حوالے نہیں کرنا

دیکھا نہیں اس فقر نے کیا کر دیا تم کو
اس فقر کو شاہوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس معرکۂ عشق میں جو حال ہو میرا
لیکن مجھے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا​

تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا​

خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے​
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا​

ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو​
اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا​

تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی​
نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا​

پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک​
چادر نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلا​

کیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک​
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا​

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا
کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا

اُس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ
جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اُسی کے ہو لینا

کچھ تو ریت کی پیاس بجھائو جنم جنم سے پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پائوں بھگو لینا

ہم نے دریا سے سیکھی ہے پانی کی پردہ داری
اوپر اوپر ہنستے رہنا، گہرائی میں رو لینا

روتے کیوں ہو دل والوں کی قسمت ایسی ہوتی ہے
ساری رات یوں ہی جاگو گے دن نکلے تو سو لینا
Powered by Blogger.